حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شہید علامہ ڈاکٹر غلام محمد فخر الدین کی ساتویں برسی کی مناسبت سے ایک فکری نشست جامعۃ النجف میں منعقد ہوئی جس میں شہید کے نظریاتی دوستوں نے شرکت کی اور اظہار خیال کیا۔
تفصیلات کے مطابق شب ہفتہ کو ایک فکری وعملی نشست کا اہتمام شہید فخر الدین کے دوست واحباب کی جانب سے منعقد ہوا۔شہید کے قریبی علمی ونظریاتی دوستوں نے ان کی زندگی کے مختلف پہلووں پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔
نشست کا آغازتلاوت کلام پاک سے ہوا۔اس کے بعد سینئر تنظیمی ساتھی علی نوری نے شرکاء کا تعارف پیش کیا۔اس نشست کی نظامت شیخ سکندر علی بہشتی نے انجام دیئے۔افتتاحی کلمات میں انہوں نے فکری وعلمی شخصیات اور ان کی خدمات کوزندہ رکھنے کی ضرورت پر گفتگوکی۔شہیدفخر الدین کی یاد میں اس نشست کے انعقاد پر ان کے دوستوں کوخراج تحسین پیش کیا۔اس کے بعد شرکاء کو شہید کے حوالے سے گفتگو کی دعوت دی۔
سب سے پہلے شیخ اعجاز بہشتی نے شہید فخر الدین کی حوزوی زندگی،علمی وتبلیغی خدمات کے حوالے سے کہاکہ:شہید فخر الدین نے کم وقت میں مقدمات وسطحیات کو مکمل کیا جو آپ کے اعلیٰ علمی استعداد کی علامت ہے۔
انہوں نے کہا: میں تقریبا 20سال ساتھ رہے۔اس دوران کچھ خصوصیات کو ملاحظہ کیا وہ پیش کروں گا:
ان کی اہم خصوصیت مسلسل مطالعہ اور حفظ کی صلاحیت تھی۔ایک ہی مطالعہ میں مطالب کو یاد کرتے تھے۔اس لیے تین سال میں مقدمات اور چھ سال میں سطحیات مکمل کی۔ المصطفی یونیورسٹی میں علمی میدان اور خطابت دونوں میں انہوں نے نام روشن کیا۔
دوسری اہم خصوصیت جدیت،محنت وکوشش تھی،کم سوتے تھے۔مباحثہ ومطالعہ میں گھنٹوں صرف کرتے تھے۔
تیسری اہم خصوصیت معنویت میں بلند مقام پر فائز ہونا ہے۔وہ آیت اللہ بہجت کی جماعت میں شرکت کرتے اور وہ ان کے نزدیکی افراد میں شمار ہوتے تھے۔
چوتھی اہم خصوصیت وہ جامع شخصیت تھے۔حوزہ میں کسی ایک فیلڈ میں ماہر ملتے ہیں۔لیکن ہر لحاظ جامع افراد کی کمی ہے۔شہیدکا شمار آیت اللہ معرفت کے خاص شاگردوں میں ہوتاتھا۔وہ ان سے درس میں مختلف پیچیدہ سوالات کرتے تھے۔
ایران میں باصلاحیت شخصیت کی شناخت کے لیے ایک ٹیم تشکیل پائی۔اس ٹیم نے پاکستان کی برجستہ شخصیات میں شہید فخر الدین کا نام انتخاب ہوا۔
ایک دفعہ جامعۃ المصطفی کی طرف سے رہبر کی قم آمد پر مختصر تقریر کے لیے طلاب میں سے شہید کاانتخاب کیاگیا۔
علامہ راجہ ناصر کے ساتھ اجلاس میں انہوں نے شہید فخر الدین کو سب بڑی علمی شخصیت قرار دیتے ہوئے ان کو پاکستان آنے کی دعوت دی۔
شہید کی شہادت ایک راز ہے۔آپ ایک نابغہ،باتقوی اورعلمی وخطابت کے شہہ سوارتھے۔جن کی مثال کم ملتی ہے۔
شہید فخر الدین کے تنظیمی دوست جناب کاچو زاہد علی خان رکن مرکزی نظارت آئی ایس او پاکستان نے شہید اور تنظیمی وقومی مسائل کے عنوان پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ:
شہید کاشمار ان معدود افراد میں ہوتاتھا جو آئی ایس او کو سب سے زیادہ وقت دیتے۔بچپن سے ہی محبین اور مجالس سے خطاب کی وجہ سے اخوند مشہور ہوئے۔ہر پروگرام میں پیش قدم ہوتے تھے۔
تحریک جعفریہ میں ان کا بنیادی رول رہا خصوصا شہید عارف کے زمانے اور علامہ ساجد نقوی کی قیادت کے ابتدائی ایام میں وہ بہت ہی فعال رکن رہے۔
بائیکاٹ تحریک میں شہید فخر الدین نے حکومت کے خلاف بھرپور مہم میں حصہ لیا۔
ایران جانے کے بعد واپس آکر دو موضوعات کو بہت اہمیت دیا۔ایک نظام ولایت فقیہ کا دفاع اور دوسرا خود رہبر معظم کی رہبریت کاتعارف۔خصوصا وہ عاشق رہبر تھے۔اس حوالے سے لوگوں میں شعور بیدار کیا۔
شہید کے قریبی دوست وکالج فیلو،قائد بلتستان کے فرزند برادر محمد حسین حاجی آغا سابق ڈویژنل صدر آئی ایس او پاکستان بلتستان نے شہید کی تنظیمی اور طالب علمی کے دور کی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہاکہ:
جب سے آئی ایس او میں شامل ہوئے شہید کے ساتھ صمیمی دوستی ہوئی۔شہید میں کچھ خصوصیات تھی جو اللہ نے ان کوخاص عطا کی تھی۔
طالب علمی کے زمانے سے ہی وہ مذہبی وسیاسی موضوعات پر سب سے بحث کرتے۔دیگر مذاہب کے سٹوڈنٹس کے ساتھ دلیل کے ساتھ گفتگو کرتے۔
جب خود ایران جانے کے لیے آمادہ ہوئے تو میرے والد مرحوم کے پاس آکر مجھے میں ایران ساتھ بھیجنے کے لیے اصرار کیا۔بائیکاٹ تحریک میں سب سے پرجوش وفعال تھے۔
ان کی ذہانت انتہائی اعلیٰ درجے کی تھی۔معمولی توجہ کے ساتھ وہ چیز ذہن پر نقش ہوتا۔
ولایت فقیہ کے حوالے سے حساس تھے اور ہمہ وقت شعوری کوشش کرکے اس کمی کوپورا کرنے اور رہبریت کو سمجھانے کی انتھک کوشش کرتے تھے۔
جامعہ نجف کے سنئیر طالب حسین جناب محمد کاظم مطہری نے شہید فخر الدین کے بارے میں اپنے تھیسز کا تعارف پیش کیا۔اور کہا اس تحقیق کے دوران مختلف انٹرویوز سے شہید کے بہت سے اخلاقی اوصاف مجھ پر ظاہر ہوئے ۔شہید ایک شخص نہیں ایک فکر وتحریک کانام ہے۔
نشست کے آخر میں شہید کے ساتھی ودوست جناب علی نوری سابق ڈویژنل صدر آئی ایس او پاکستان بلتستان و چیئرمین الہدیٰ فاؤنڈیشن/امامینز بلتستان نے شہید کے بارے میں اپنا مقالہ پیش کیا۔اور شہید فخرالدین کے نمایاں اوصاف اور ہماری ذمہ داری کے عنوان پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ:بعض شخصیات کسی ایک فن کے ماہر ہوتے ہیں۔مگر شہید وہ شخصیت ہے جو ایک بہترین طالب علم،قومیات میں سب سے فعال قومی شخصیت،تنظیموں میں سرگرم رہنما،علمی وفکری میدانوں میں سب سے نمایاں تھے۔
بلتستان میں آئی ایس او کاتعارف کرایا،
کوئی پروگرام ایسانہیں ہوتا جس میں شہید نہ ہو،
یوم حسین میں مرکزی خطیب،
دعائیہ پروگراموں میں بہترین آواز میں دعا اور بہترین قاری قرآن اور آفاقی سوچ کے حامل تھے۔
امام زمان کے ظہور کے لیے کام کرتے، خط ولایت کی پرچار ، امام راحل اور رہبر معظم کے حقیقی عاشق تھے اپنی تقاریر میں قرآن ونہج البلاغہ سے خوب استفادہ کرتے تھے۔
اب سوال یہ ہے کہ ہماری کیا ذمہ داری ہے۔؟
انہوں نے کم وقت میں اعلیٰ مقام حاصل کیا۔جس کا اعتراف ملک اور بیرون ملک مختلف علمی شخصیات نے کیا ہے۔
شہید سے محبت اور عقیدت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم شہید کے افکار و نظریات اور خدمات کو ہمیشہ زندہ رکھیں اور آنے والی نسلوں تک پہنچائیں ۔